ٹُوٹ جاۓ نہ بھرم ہونٹ ہِلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سُناؤں کیسے

خُشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مَہک آتی ہے
مَیں تیرے غم کو زمانے سے چُھپاؤں کیسے


تیری صُورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نِگاہوں کو ہٹاؤں کیسے

تو ہی بتلا میری یادوں کو بھُلانے والے
مَیں تیری یاد کو اِس دل سے بھُلاؤں کیسے

پُھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی رہتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے

آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیمؔ
اِتنا نازُک ہو تعلُّق تو نِبھاؤں کیسے

وہ رُلاتا ہے رُلائے مُجھے جی بھر کے عدیمؔ
میری آنکھیں ہے وہ مَیں اُس کو رُلاؤں کیسے۔۔۔!

عدیمؔ ہاشمی

Post a Comment

Previous Post Next Post