Poetry John Elia

poetry john
Jaun Elia Poetry 


John Elia Poetry in Urdu- Express your feelings with poetry largest collection of John Elia poetry, Ghazal, and Urdu Shayari. Read and Share your favriout collection of john Elia Shayari in Urdu with your friends and family. John Elia shayari in urdu- John Elia was died in November 8, 2002 and born in December 14, 1931

Jaun Elia poetry in urdu | best of Jaun Elia



شاید
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں
شاید، جانِ جاں شاید
کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو
ہے دل غمگیں، بہت غمگیں
کہ اب تم یاد دل وارانہ آتی ہو
شمیم دور ماندہ ہو
بہت رنجیدہ ہو مجھ سے
مگر پھر بھی
مشامِ جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو
جدائی میں بلا کا التفاتِ محرمانہ ہے
قیامت کی خبر گیری ہے
بےحد ناز برداری کا عالم ہے
تمہارے رنگ مجھ میں اور گہرے ہوتے جاتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
میرے احساس کے اس خواب کا انجام کیا ہوگا
یہ میرے اندرونِ ذات کے تاراج گر
جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئی
تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے
دل سہما ہوا سا ہے
تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
متاعِ دل، متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیلِ ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جائے


رمز

Ramz john Elia poetry


تم جب آؤ گی ، تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ھے مجھ پر
ان میں اک رمز ھے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدہ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

Jaun Elia Best Poetry in Urdu

نوائے درونی

نیلگوں حُزن کے اکناف میں گم ہوتے ہوئے
مہرباں یاد کے اطراف میں گم ہوتے ہوئے
بے طرف شام کے ابہام کی سرسبزی میں
جو تنفس سے خموشی کے سنا یے میں نے
ایسا نغمہ کسی آواز کے جنگل میں نہیں


شہرِ آشوب

گزر گئے پسِ در کی اشارتوں کے وہ دن
کہ رقص کرتے تھے مے خوار رنگ کھیلتے تھے
نہ محتسب کی تھی پروا نہ شہرِ دار کی تھی
ہم اہلِ دل سرِ بازار رنگ کھیلتے تھے

غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاطِ فکر و بساطِ ہنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون؟
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد

ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں
فضائیں ہی نہ رہیں رقصِ رنگ و بو کے لیے
یہ انتظام تو دیکھو خزاں پرستوں کا
بچھائی جاتی ہیں سنگینیاں نمو کے لیے

اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اٹھے اس نظر کو گُل کر دیں
جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ فضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گُل کر دیں

ہوئی ہے جانبِ محراب سے وہ بارشِ سنگ
کہ عافیت خمِ ابرو کی ہے بہت دشوار
ستم کیا ہے عجب منجنیقِ منبر نے
حریمِ دل کی سلامت نہیں رہی دیوار

یہ عہد وہ ہے کہ دانشورانِ عہد پہ بھی
منافقت کی شبیہوں کا خوف طاری ہے
نمازِ خوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو
قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے

یہ ہیں وہ تیرہ دلانِ قلمروِ تاریخ
جو روشنائی ءِ دانش کا خون کرتے رہے
یہی تو ہیں جو حکیموں کی حکمتوں کے خلاف
ہر اک دور میں حاکم کے کان بھرتے رہے

ہیں ظلمتوں کی مربی طبیعتیں ان کی
کبھی یہ روشنیِ طبع کو نہیں مانے
ہے روشنی کا انہیں ایک ہی نظارہ پسند
کہ جشنِ فتح منے اور جلیں کتب خانے

دیا ہے کام انہیں شب کے سر پرستوں نے
سپیدہِ سحری کو سیاہ کرنے کا
ملا ہے عہدہ کلیسائے عرب سے ان کو
شعورِ مشرقِ نو کو تباہ کرنے کا

گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں




اجنبی شام
AJnabi Sham john Elia

دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف 
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کے چروا ہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دل ناکام! میں کہاں جاؤں؟
اجنبی شام! میں کہاں جاؤں؟


وصال

وہ میرا خیال تھی، سو وہ تھی
میں اس کا خیال تھا، سو میں تھا
اب دونوں خیال مر چکے ہیں




اعلانِ رنگ

سفید پرچم، سفید پرچم
یہ ان کا پرچم تھا جو شکاگو کے چوک میں جمع ہو رہے تھے
جو نرم لہجوں میں اپنی محرومیوں کی شدت سمو رہے تھے
کہ ہم بھی حقدارِ زندگیِ ہیں مگر دل افگارِ زندگی ہیں
ہمارے دل میں بھی کچھ امنگیں ہیں ہم بھی کچھ خواب دیکھتے ہیں
خوشی ہی آنکھیں نہیں سجاتی ہیں غم بھی کچھ خواب دیکھتے ہیں
یکم مئی کی سحر نے جب اپنا نفسِ مضموں رقم کیا تھا
بلا نصیبوں کو زندگی کی امنگ نے ہم قدم کیا تھا
اور اک جریدہ نگارِِ صبحِ شعورِ محنت نے آج کے دن
بنامِ محنت کشاں یہ پیغامِ حق سپردِ قلم کیا تھا
الم نصیبو بہادری سے ستم نصیبو بہادری سے
صفوں کو اپنی درست کر لو کہ جنگ آغاز ہو چکی ہے
تمہارے کتنے ہی باہنر ہاتھ ہیں جو بےروزگار ہیں آج
تمہارے کتنے نڈھال ڈھانچے گھروں میں بے انتظار ہیں آج
نظامِ دولت کے پنجہ ہاے درشت و خونیں شروع ہی سے
فریبِ قانون و امن کی آڑ میں چھپے ہیں ، چھپے رہے ہیں
گروہِ محنت کشاں ہو تیری زبان پر اب بس ایک نعرہ
مفاہمت ختم ہو چکی ہے ، مفاہمت ختم ہو چکی ہے
ستمگروں سے ستم کشوں کی معاملت ختم ہو چکی ہے
یکم مئی کا حسابِ عظمت تو آنے والے ہی کر سکیں گے
ہجوم گنجان ہو گیا تھا عمل کا اعلان ہو گیا تھا
تمام محرومیاں ہم آواز ہو گئیں تھیں کہ ہم یہاں ہیں
ہمارے سینوں میں ہیں خراشیں ہمارے جسموں پہ دھجیاں ہیں
ہمیں مشینوں کا رزق ٹھہرا کے رزق چھینا گیا ہمارا
ہماری بخشش پہ پلنے والو ہمارا حصہ تباہیاں ہیں
مگر یہ اک خواب تھا وہ اک خواب جس کی تعبیر خونچکاں تھی
رقم جو کی تھی قلم نے سرمایے کے وہ تحریر خونچکاں تھی
سفید پرچم نے خونِ محنت کو اپنے سینے پہ مل لیا تھا
یہ وقت کی سربلند تدبیر تھی یہ تدبیر خونچکاں تھی
دیارِ تاریخ کی فضائوں میں سرخ پرچم ابھر رہا تھا
یہ زندگی کی جلیل تنویر تھی یہ تنویر خونچکاں تھی
یکم مئی خون شدہ امنگوں کی حق طلب برہمی کا دن ہے
یکم مئی زندگی کے زخموں کی سرخرو شاعری کا دن ہے
یکم مئی اپنے خونِ ناحق کی سرخ پیغمبری کا دن ہے
یکم مئی زندگی کا اعلانِ رنگ ہے زندگی کا دن ہے
یہ زندگی خون کا سفر ہے اور ابتلا اس کی رہگزر ہے
جو خون اس سیلِ خون کی موجوں کو تند کر دے وہ نامور ہے
یہ خون ہے خون سر زندہ یہ خونِ زندہ ہے خونِ زندہ
وہ خون پرچم فراز ہوگا جو خونِ زندہ کا ہمسفر ہے
یہ خوں ہے سرنام یعنی سرنامئہ کتابِ امم یہ خوں ہے
ادب گہِ اجتہادِ تاریخ میں نصابِ امم یہ خوں ہے
صلیبِ اعلانِ حرفِ حق کا خطیب بھی یہ خطاب بھی یہ
یہ اپنا ناشر ہے اور منشورِ انقلابِ امم یہ خوں ہے
یہ خون ہی خیرِ جسم و جاں ہے اس امتحاں گاہِ زندگی میں
جہاں کہیں ظلم طعنہ زن ہو وہاں جوابِ امم یہ خوں ہے
یہ خون ہی خواب دیکھتا ہےشکست کی شب بھی ، صبحِ نو کے
پھر اپنی ہی گردشوں میں تعبیر کوشِ خوابِ امم یہ خوں ہے
یہ خوں اٹھاتا ہے غاصبوں کے خلاف طوفاں بغاواتوں کے
ہوں عام جب زندگی کی خوشیاں تو آب و تابِ امم یہ خوں ہے
جو ظلم سے دو بدو ہیں ان کی صفوں کو قوت پلائو، آئو
اسی طرح خونِ زندہءِ ہر زماں، جہاں اقتدار ہوگا
نفاق اور افتراق ہی میں پناہ لیتے رہے ہیں ظالم
جو ظالموں کو پناہ دے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا





تعاقُب

مجھ سے پہلے کے دن
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
خواب و تعمیر کے گم شدہ سلسلے
بار بار اب ستانے لگے ہیں تمہیں
دکھ جو پہنچے تھے تم سے کسی کو کبھی
دیر تک اب جگانے لگے ہیں تمہیں
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
اپنے وہ عہد و پیماں جو مجھ سے نہ تھے
کیا تمہیں مجھ سے اب بھی کچھ کہنا ہے؟


دوئی

بوئے خوش ہو، دمک رہی ہو تم
رنگ ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے خوش! خود کو رو برو تو کرو
رنگ! تم مجھ سے گفتگو تو کرو

وقت ہے لمحہ لمحہ مہجوری
چاہے تم میری ہم نشیں بھی ہو
ہے تمہاری مہک میں حزنِ خیال
جیسے تم ہو بھی اور نہیں بھی ہو

میرے سینے میں چُبھ رہا ہے وجود
اور دل میں سوال سا کچھ ہے
وقت مجھ کو نہ چھین لے مجھ سے
سرخوشی میں ملال سا کچھ ہے

میری جاں! ایک دوسرے کے لیے
جانے ہم ناگزیر ہیں کہ نہیں
تم جو ہو تم ہو! میں جو ہوں میں ہوں
دل ہوا ہے سکوں پذیر کہیں



بُرجِ بابِل

بُرجِ بابِل کے بارے میں تُو نے سنا؟
بُرج کی سب سے اُوپر کی منزل کے بارے میں تُو نے سنا؟
مجھ سے کلیدانوں، کاہنوں نے کہا
بُرج کی سب سے اُوپر کی منزل میں
اک تخت خوابِ قداست ہے
جس پر خداوند آرام فرما رہا ہے
خداوند اُن کا خدا
حضرتِ اقدسِ کبریا
اور سر تا سرِ ارضِ بابِل میں یعقوب کے مرد و زن
جاں کنی کی اذیت میں
زندہ رکھے جا رہے ہیں
یہی اُن کو مقسوم تھا
اور زل سے خداوند آسودہ ہے




Post a Comment

Previous Post Next Post