ہر کسی سے بچھڑ گیا ہوں میں
کون دل میں میرا ملال رکھے
شہر ہستی کا اجنبی ہوں میں
کون آخر مرا خیال رکھے
جون ایلیا
-----------
ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو
، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
جون ایلیا
-----------
اے یار کسی شام مرے یار کسی شام
بے رونقیءِ محفلِ یاراں پہ نظر ہو
جو تجھ سے بھی ہیں بےسروکار اب تری خاطر
آخر کبھی ان بےسروکاراں پہ نظر ہو
جون ایلیاء
-----------
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
جون ایلیاء
-----------
سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے'
پڑھی ہے یہ عبارت درمیاں سے......
(جون ایلیاء)
-----------
آج بھی تشنگی کی قسمت میں
سمِ قاتل ہے سلسبیل نہیں
سب خدا کے وکیل ہیں لیکن
آدمی کا کوئی وکیل نہیں
ہے کشادہ ازل سے روئے زمیں
حرم و دیر بے فصیل نہیں
زندگی اپنے روگ سے ہے تباہ
اور درماں کی کچھ سبیل نہیں
تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
مت کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
جون ایلیاء
-----------
🙂
Post a Comment